ایمان والا کون ہے
مسلمان ہونا ،نسل اور ذات پات کے نظام کی طرح دنیا میں شناخت کی علامت تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے ہاں ایمان والا کون ہے؟ اس بات کا تعین دل میں موجود وہ یقین کرتا ہے ،جو انسان اپنے رب پہ کررہا ہوتا ہے۔ اور کون کس حد تک اللہ پر یقین کرتا ہے ، اُس کی حد ہی کامیابی کا مقام معین کرتی ہے۔ اور اُتنا ہی وہ شخص ایمان والا ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو مسلمان تو ہیں، لیکن ان کی ساری توجہ کا مرکز ان کی اپنی ذات ہی ہوتی ہے ۔جبکہ مومن ہونا اس کے با لکل متضاد معاملہ ہے۔ مومن تو وہ ہے جو عملی طور پر خود کو اللہ کی رضا کے حوالے کر دے ۔ اور اپنی ذات یا اپنے جیسے کسی اور انسان کے بجائے صرف اللہ کی ذات ہی اُس کی ساری توجہ کا مرکز ہو۔ اسے اپنے رب پر ایسا یقین ہو کہ دنیا کا کوئی اچھا یا بُرا معاملہ اسے غمگین یا خوف ذدہ نہ کر سکے۔
گذشتہ خلاصہ:
گذشتہ دو آرٹیکلز میں ہمارے سوال کہ:
وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو علم و عقل دونوں چیزوں کے موجود ہونے کے باوجود حق کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ؟
اس کے جواب میں ایک بنیادی بات "فسق” کے ساتھ ان تمام لوگوں کی نشاندہی ہوگئی تھی جو حق کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ یعنی وہ سب کے سب لوگ جو حق کا انکار کرنے والے ہیں ،وہ یقینی طور پر "غیر عادل ” لوگ ہیں جو حق کے تمام دلائل پہچان جانے کے باوجود انصاف کا فیصلہ نہیں کرتے ۔ ان تمام غیر عادل لوگوں میں سے دو طرح کے اوّلین گروہوں کی نشاندہی ہوئی جو سب سے پہلے یہ ظلم کرتے ہیں ۔ اور وہ معاشرے کے :
- خوشحال لوگ یعنی بادشاہ اور سردار
- اور انہی کی پیروی کرنے والے کمزور لوگ شامل ہیں۔
ان دونوں گروہوں کے ساتھ اِن کے ایساکرنے کی ایک وجہ ہمارے سامنے آئی جو کہ دونوں کے لیے بنیادی طورپر:
- اقتدار یا دنیاوی غلبے کی خواہش تھی ۔
دیگر لوگ اور ان کی وجوہات:
یہ وہ اوّلین لوگ ہیں جن سے اِس نا انصافی اور ظلم کا آغاز ہوتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ معاشرے میں صرف اِنہی دو گروہوں کے لوگ نہیں ہوتے ،بلکہ اور بھی بہت سے غیر عادل لوگ موجود ہوتےہیں جو حق کا انکار کرتے ہیں ۔ ان کے انصاف نہ کرنے کی وجہ کیا ہوتی ہے یہ جاننا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم پوری طرح سے جان سکیں کہ ہر انسان خود ہی اپنے فیصلے اور اعمال کا ذمہ دار ہے۔
وہ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟
آیئے یہ جاننے کے لیے قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔
اور یقینا ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجاکہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ پھر ان میں بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر ضلالت ثابت ہو گئی ۔ لہذا تم زمین میں سیر کرو ، پھر دیکھو ( رسولوں ) کو جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (النحل -36 )
آیت کا پیغام:
اس ایک آیت میں ہی اللہ سبحان وتعالیٰ نے ہمارے سوال کا مکمل جواب دے دیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سچ جاننے کی طلب کے ساتھ اس پر تدبرُ کیا جائے ۔اس آیت میں اللہ سبحان وتعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتیں ہمارے لئے کھول کر بیان کی ہیں۔
- انسان کا اِس دنیا میں آنے کا مقصد۔
- کل کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انسان کے لیے دو راستوں کی وضاحت ۔
- ان دو نوں راستوں کی رہنمائی کےلیے انبیاء اور رسول کا بھیجنا ۔
- جھٹلانے والوں کے انجام سے خبردار کیا ہے ۔
- جھٹلانے والوں کے بُرے انجام پر غوروفکر کرنے کے لیے سفر کرنے کی دعوت و ترغیب۔
انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد :
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صاف طور پر ہمارے اس دنیا میں موجود ہونے کا مقصد بتایا ہے ۔ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے ، دل و دماغ دے کر ،اس دنیا میں بھیج کر چھوڑ نہیں دیا تا کہ انسان دنیا میں جاکر کھیل کود میں مصروف ہو جائے اور بھٹکتا پھرے ۔ اُسے پتہ ہی نہ ہوکہ یہاں کرنا کیا ہے ۔ بلکہ اللہ نے مکمل رہنمائی کی ہے اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندے بھیجے ہیں جو واضح طور پر انسان کے یہاں موجود ہونے کا مقصد لوگوں کو بتاتے ہیں ۔
” اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو”
"عبادت” ہی وہ مقصدِ حیات ہے جس کے لیے انسان احسن طریقے سے تخلیق کر کے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔ عبادت کا لفظ "عبد” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ” بندہ یا غلام " ،اسی سے لفظ بندگی بھی نکلا ہے ۔ اِس ایک لفظ عبادت میں ہی پوری آیت کا مفہوم اور انسان کے بہت سارے سوالوں کا جواب موجود ہے ۔” عبادت یا بندگی ” وہ رشتہ ہے جو صرف تخلیق کرنے والے رب اور اُسکی مخلوق کے درمیان ہو سکتا ہے ۔ اِس ایک رشتے کے علاوہ کوئی دوسرا رشتہ یا تعلق اس لفظ عبادت کے شایان شان نہیں ۔ کوئی بھی انسان جو اس روئے زمین پر موجود ہے وہ صرف او ر صرف اپنے پیدا کرنے والے رب ہی کا بندہ یا غلام ہو سکتا ہے ۔ صرف ایک رب تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو لائق بندگی ہے ۔ بندگی تب ہی ممکن ہے جب انسان حقیقی معنوں میں اپنے رب کو پہچان جائے اور یہ پہچان ہی مقصدِ حیاتِ نوعِ انسانی ہے ۔
انسان کےلیے کل کائنات دو حصوں میں :
ا س آیت میں اللہ سبحان وتعالیٰ نے کل کائنا ت کو انسان کے لیے دو حصوں میں اس طرح سے تقسیم کردیا ہے ۔
” اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔”
ان دو حصوں میں ایک طرف خود اللہ سبحان وتعالیٰ ہیں اور دوسری طرف اللہ ہی کی تخلیق کردہ پوری کائنات اور اس میں موجود ہر وہ چیز جس کی بھی ممکنہ طور پر انسان کے دل میں خواہش یا محبت پیدا ہوسکتی ہے ۔
طاغوت کے لفظی معنی :
طاغوت لفظ” طُغا” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ” اُمڈ آنا یا "حد سے بڑھنا "
اسی طُغا سے اُردو زبان کا لفظ "طغیانی” بھی نکلا ہے جس کا مطلب ” سیلاب آنا” ہے سیلاب اسی وقت آتا ہے جب پانی اپنی مقررہ حد سے بڑھ جائے ۔ ضرورت سے زیادہ ہونے والی کوئی بھی چیز مفید ہونے کے زمرلے سے نکل کر خطرے کے زمرلے میں آجاتی ہے ۔ یہی بات لفظ طاغوت کی اساس ہے ۔
طاغوت کے لغوی معنی :
قرآن کریم میں استعمال ہونے والے اس لفظ "طاغوت ” کے معنی بہت وسیع ہیں ۔ کوئی بھی چیز ہجر، شجر، شخص ، کوئی معاملہ ، کوئی خواہش جیسے نام عزت ، شہرت ، بت ، یہاں تک کے انبیاء اور رسول بھی طاغوت کے معنی میں شامل ہو جائیں گے جب ان میں سے کسی بھی چیز کی محبت یا مقام انسان کے دل میں حد سے بڑھی ہوئی ہو۔ہر وہ چیز ظاغوت میں شامل ہے جس کی اس پوری کائنات میں ممکنہ طور پر خواہش کی جا سکتی ہے اور اس چیز کی غلامی میں انسان اِس طرح سے مبتلا ہوکہ اپنے دل میں وہ مقام دیا ہو جو مقام صرف اور صرف اس کے رب کا ہونا چاہیے ،وہ طاغوت بن جائے گی حالا نکہ اصل میں وہ شے یا انسان طاغوت نہیں ۔
کوئی چیز طاغوت کب بنتی ہے ؟
اس دنیا کی خواہشات انسان کے دل میں موجود ہونا کوئی بُرائی نہیں ہے ۔ اِن خواہشات کا پورا ہونا ، انسان کے پاس موجود ہونا ا ور ان سب کے لیے جدوجہد کرنا بھی کوئی برا ئی نہیں ہے ۔ انسانی نفس کی یہ ساری خواہشات اللہ سبحان وتعالیٰ نے ہی انسان کے اندر رکھی ہیں اور ان کو حاصل کرنے اور ان سے جُڑ ے رہنے کے تعمیری راستے بھی اللہ سبحان وتعالیٰ نے ہی ہمارے لیے وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں ۔ کسی بھی قسم کی خواہش انسان کے لیے طاغوت اُس وقت بنتی ہے جب وہ حد سے بڑھ جائے ۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
کیسے معلوم ہو کہ کوئی بھی مطلوبہ چیز کس وقت اپنی چاہت میں انسان کے دل میں اپنی حد سے بڑھ گئی ہے ؟
حد سے بڑھنے کی تعریف کیا ہے ؟
آئیے دیکھتے ہیں قرآن میں حد سے بڑ ھنے کو کس طرح بیان کیا گیا ہے:
وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو لغو باتوں سے مُنہ موڑنے والے ہیں۔ اور وہ جو زکوت ادا کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں یا ان ( کنیزوں ) کے جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ، تو بلاشبہ ( ان کی بابت) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان کے علاوہ ( رستہ) تلاش کرے تو ایسے لوگ ہی حد سے گزرنے والے ہیں۔ (المُومِنون ۔۲،۳،۴،۵،۶،۷،)
قرآن کی اس وضاحت کے مطابق حد سے بڑھنے والے لوگ وہ ہیں جو :
اللہ اور اس کے احکامات کو نظر انداز کرکے، اس کی طرف سے متعین کردہ حدود کو عبور کرتے ہیں ۔ اللہ سے بے خوف ہو کر اپنی خواہش کے حصول کے لیے جو بھی راستہ چاہیں ،وہ اپنا لیتے ہیں۔ یعنی اُس کی فرمانبرداری اُن کے لیے اہم نہیں ہوتی ۔ پھر اللہ کی فرمانبرداری کے علاوہ جو بھی راستہ ہو گا وہ صرف اُس کی نافرمانی ہو گی۔
اللہ سے بے خوفی اور اس کی نافرمانی ہی حد سے تجاوز کرنے کی نشانیاں ہیں۔
طاغوت کی نشاندہی:
"یعنی جب کسی بھی چیز، معاملے یا شخص کی محبت انسان کے دل میں اس مقام پر آجائے کہ انسان اُس کی خاطر اللہ کے حکم کی نا فرمانی سے دریغ نہ کرے ۔اس صورت میں انسان کی وہ خواہش، اس کے لیے طاغوت بن جاتی ہے۔”
اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت انسان خود کسی خواہش کی وجہ سے کرے یا کوئی کرنے کو کہے، طاغوت کی نشاندہی اسی بات سے ہوتی ہے کہ اس کی کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف جاتی ہو۔
طاغوت سے کیسے بچیں؟:
اگر کوئی شحص کوئی بھی کام کرنے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس بارے میں میرے رب کا کیا حکم ہے اور وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی عمل کرنے سے ڈرتا ہے تو یہ اللہ سے ڈر نا ہی وہ چیز ہے جو اسے طاغوت کی طرف جانے سے بچا رہی ہے ۔اور یہ ڈر ہی اس شخص کےدل میں ہر چیز سے اوپر ،اللہ کا مقام ہونے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس بات کو قرآن میں اللہ سبحان وتعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
" بس آپ تو انہی لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ نماز قائم کرتے ہیں ، اور پاک ہو گیا تو وہ اپنے لیے ہی پاک ہوتاہے اور ( سب کو ) اللہ ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" (فاطر - حصہ آیت 18 )
پاک وہی ہوتے ہیں جو خود کو ہر اُس بُرائی سے بچاتے ہیں جو اللہ کے ہاں نا پسندیدہ ہو ۔ اس بچتے رہنے کو ہی پاکیزگی اختیار کرنا کہتے ہیں اور اس ڈرتے رہنے کو ہی تقویٰ اختیار کرنا کہتے ہیں ۔ اور یہ انہی لوگوں کی خوبی ہے جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی کسی بھی معاملے میں کرنا اِن کو گوارہ نہیں ہوتا ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی حد جانتے ہیں ، اس سے تجاوز نہیں کرتے اور ان کا دل طاغوت کی بجائے اپنےرب کی طرف جھکا ہوا ہوتا ہے ۔
انسان کے لیے دو راستوں کی وضاحت :
یہی اللہ سے ڈرنا یا نہ ڈرنا انسان کے لیے مقام فیصلہ ہوتا ہے ۔ جہاں انسان کے لیے دو راستے بالکل واضح ہو جاتے ہیں ۔ یہیں پر انسان نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ یا تو ایک طرف وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو پسند کر لے جو اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے یا اس دنیا کی حد سے بڑھی ہوئی محبت کی طرف جھک جائے اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کی رضا کو پس پشت ڈال کرحق بات سے انکار کا مرتکب ہو جائے ۔
ایمان والا کون ہے؟:
اللہ کے نزدیک مومن یا مسلمان ہونا کوئی شناختی کارڈ یا پا سپورٹ پر لکھی پہچان نہیں ہے بلکہ یہ تو دلوں کی حالت ہے ۔ کون شخص نام مسلمانوں والا ہونے کے باوجود دل میں کیا کر رہا ہے یہی اس کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کی نشانی ہے اور یہ دل کی حالت صرف اور صرف دل بنانے والا رب ہی جا نتا ہے کہ کون سا شخص اپنے رب کا کیسا بندہ ہے ، اُس سے کتنا ڈر رہا ہے ، کتنا مومن ہے ، اور کتنا طاغوت سے بچ رہا ہے ۔
فیصلے پر اثر انداز ہونے والے اندرونی عوامل:
ہر شخص کے لیے اللہ اور طاغوت کے درمیان فیصلہ کرنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ جیسے بادشاہ اور سرداروں کے لیے وہ اندرونی معاملہ ان کا تکبر تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اس نا انصافی اور ظلم کا ارتکاب کیا تھا ۔ان بادشاہ اور سرداروں کی پیروی کرنے والے کمزور لوگوں کا اندرونی معاملہ ان کی دنیا کی آپسی دوستی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے بڑوں اور صاحب حیثیت لوگوں سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے گمراہ ہوئے ۔ یہ عوامل ہر شخص کے لیے اپنے اور ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ۔ جس میں ان کی نا شکری ، بے صبری ، اللہ کی رحمت سے مایوسی ، دین میں شک جیسے کوئی بھی اندرونی معاملات ہوسکتے ہیں اور ان اندرونی معاملات اور سینوں کے رازوں کو سوائے اللہ سبحان وتعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا ۔ بے شک وہی سینوں کے راز جانتا ہے اور اس بات کا زکر ہم پہلے بھی تفصیل کے ساتھ آرٹیکل 4 میں کر چکے ہیں ۔ قرآن میں اور بھی بہت ساری جگہوں پر مختلف الفاظ میں اس بات کا ذکر اللہ سبحان تعالیٰ نے کیا ہے :
بے شک آپ کا رب ہی خو ب جانتا ہے اس شخص کو جو اس کی راہ سے بھٹکا اور ہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے ۔ (النحل - حصہ آیت۱۲۵)
یعنی اللہ سبحان وتعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کوئی شخص کس وجہ سے کسی راستے کا انتخاب کر رہا ہے ۔
اس آیت میں بھی اللہ سبحان وتعالیٰ ، اپنے نبی محمد الر ّسول اللہ ﷺسے اسی بات کا ذکر کر رہے ہیں ۔
اور ( اے نبی ) آپ صبر کریں اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان ( کفار) پر غم نہ کھائیں اور نہ آپ اس تنگی میں مبتلا ہوں جو وہ مکر( سازش) کرتے ہیں ۔ (النحل-آیت 127 )
اس آیت میں ” مکر "وہ اندرونی عوامل ہی ہیں جو حق کے تمام دلائل کو پہچان جانے کے باوجود ناانصافی کا فیصلہ کرنے کی وجہ بن رہے ہوتے ہیں ۔ اس مکر کی حقیقت کو جاننا صرف اللہ سبحان وتعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے ۔
فیصلے پر اثر انداز ہونے والے بیرونی عوامل:
اندورنی عوامل تو بہت سارے ہوسکتے ہیں اور ہر شخص کے لیے مختلف بھی ۔ لیکن بیرونی عوامل جو انسان کے "حق” کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں وہ دو ہی ہیں۔
- دوسرے انسان
- شیطان
1 – دوسرے انسان :
اس بات کی تصدیق ہم گذشتہ آرٹیکل میں بھی کر چکے ہیں کہ بادشاہ اور سردار لوگ کمزور لوگوں کے فیصلے پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ لیکن ان سرداروں اور ماتحت لوگوں کے علاوہ معاشرے کے اور بھی لوگ ایک دوسرے کو بہکانے کی وجہ بنتے ہیں اور غلط فیصلہ کرنے پر راغب کرتے ہیں ۔ اس بات کا ذکر قرآن کے ان الفاظ میں ملتا ہے ۔
اور وہ دوسروں کو اس ( ہدایت ) سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور رہتے ہیں اور وہ اپنے آپ ہی ہلاک کر رہے ہیں ، اور وہ شعور نہیں رکھتے ۔ (الانعام-26 )
جو لوگ دوسروں کو ہدایت سے روکتے ہیں وہ اپنے کفر کے بو جھ کے ساتھ اپنے اس روکنے والے عمل کا بھی بوجھ اٹھائیں گے کیونکہ یہ عمل انہوں نے خود ہی کیا ہے ۔ اور یہ ان کا اپنا ہی عمل ہے ۔ اسی بات کا ذکر قرآن کی اس آیت میں موجود ہے :
تاکہ یوم قیامت وہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں اور کچھ ان کے بھی بوجھ جنہیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے ہیں ۔ جان لو! بُرا بوجھ ہے جو وہ اٹھاتے ہیں۔ (النحل -25 )
لیکن وہ اس شخص کے فیصلے سے بری ہیں جس نے ان کی بات مان کر ظلم کا فیصلہ کیا ہے ۔ دوسروں کی بات مان کر غلط فیصلہ کرنے والے لوگ بلاشبہ اپنے اس فیصلے کے خود ذمے دار ہیں کیونکہ ان کے دل کے مکر بھی اللہ سبحان وتعالیٰ جانتے ہیں اور ان کے پاس بھی علم و عقل دونوں کے ساتھ دلائل پہنچائے گئے ہیں ۔ اب یہ نا انصافی کا فیصلہ بے شک کسی کے بہکانے پر کیا ہے لیکن خود اپنی مرضی سے کیا ہے۔ ور نہ دلائل ان کے لیے بھی واضح ہی تھے ۔ اور اپنے لیے حق کو چھوڑ کر باطل پسند کرنے کا فیصلہ ان کا اپناہے ۔ اور اس کے پورے ذمے دار وہ خود ہی ہیں۔ اس بات کا ذکر قرآن میں اس طرح ہے ۔
یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاے گا۔ اور یہ کہ انسان کہ لیے وہی کچھ ہے جسکی اس نے سعی کی۔ اور بلاشبہ اسکی سعی جلد دیکھی جائے گئی۔ پھر اسے پوری پوری جزا دی جائے گی۔ (النجم -،39،38 ،41،40)
یاد رہے کہ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے موسیٰ ؑکا ساتھ دیا تھا اگر چہ وہ تعداد میں کم تھے اور وہ جادو گر بھی جنہوں نے حق کی نشانیوں کی تصدیق کی تھی اور حق کا فیصلہ کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ یہی وہ ذہنی وجسمانی جدوجہد یا سعی تھی جو انہوں نے اپنے لیے کی تھی اور اسکی ان کو پوری جزادی جائے گی۔
نتیجہ:
اس آرٹیکل کے اختتام تک ہمارے لیے یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ "غیر عادل لوگ” آخر ایسا کیوں کرتے ہیں ۔؟
وہ طاغوت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں
اختتام :
یہاں تک ہم نے دو بیرونی فیکٹرز میں سے ایک "دوسرے انسان ” کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے جو انسان کے فیصلے پر اثر انداز تو ہوتے ہیں لیکن یہ فیصلہ ہرانسان کا اپنا ہوتا ہے دوسرے انسان اس کے ذمے دار نہیں ۔دوسرا بیرونی فیکڑ جو انسان کے فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے وہ شیطان ہے ۔
2 – شیطان :
انسان اور شیطان کے درمیان اسی کشمکش کی تفصیلات کو ہم آگے کے آرٹیکلزمیں مکمل طور پر زیر بحث لائیں گے تاکہ یہ بات مکمل طور پر ہمارے لیے واضح ہو جائے اپنے فیصلہ اور اعمال کا انسان خودہی ذمے دار ہے ۔ اِن شاءاللہ!
عدل ہی تو ایمان ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-8
اپنے ارد گرد ہمیں بہت سے ذہین لوگ ملیں گے۔ جن سے دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کی جائے تو لگے گا جیسے وہ اس موضوع اور شعبے کو […]
حق کا انکار کرنے والے ظالم اور متکبر
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-7
انسان کا غلطی کر دینا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں۔ انسان سے خطا ء ہو جانے کے بعدہی تو اصل معاملہ شروع ہوتا ہے۔ خطاء کار […]
ایک نور مسلسل
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-6
علم محض الفاظ کا ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ وہ بصیرت ہے جو ایک نور مسلسل کی طرح انسان پر نچھاور ہوتی ہے۔ جو اس روشنی کو استعمال کر کے دیکھنا […]