اللہ کی بادشاہت ہی موضو ع قرآن ہے

انسانی ترقی کے موجودہ دور میں سائنس کے اصول اور منطق انسان کے لیے اللہ کی رضا ،اس کے قانون اور مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیںانسان کو لگتا ہے کہ سائنس کو جان کر اس نے بہت ساری نئی چیزیں تخلیق کر لی ہیں اور وہ بہت طاقت ور ہے ۔ جبکہ حقیقت کچھ یہ ہے کہ وہ انسان جن سائنس کے اصولوں کو دریافت کرتا ہے اس کی پیدائش کے بہت پہلے سے اللہ کے یہ قوانین اس کائنات میں کام کر رہے ہیں۔ اور اس پورے نظام کو بہت خوبصورت اور متوازن طریقے سے چلا رہے ہیں ۔انسان ان کو صرف دریافت کرتا ہے پھر اپنی طاقت کے مطابق نقل کرتا ہے اور چھوٹی چھو ٹی ایجادات کرتا ہے ۔ پھراپنے اس معمولی سے علم کی منطق کو اللہ ہی کی محبت اور قانون کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ کس قدر سرکش ہے یہ انسان! اللہ ایک ہے اور اسکا علم ایک وحدت ہے۔ سارا ملک اُسی کاہے ۔ اللہ کی بادشاہت ہی موضو ع قرآن ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو دھوکے میں مبتلا ہے۔
"آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کر لیتا ہے اور ( جسے چاہتا ہے ) پسند کر لیتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے کوئی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے اور ان سے کہیں اعلیٰ ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ۔" (القصص ۔۶۸ )
گذشتہ خلاصہ:
تمام اختیار اللہ رب العالمین ہی کا ہے اورانسان جس کو اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرشتوں اور جنات پر تر جیح دی ہے، اور اشرف المخلوقات کہا ہے ،اس کا کوئی اختیا ر نہیں ۔ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں یہ بات قرآن سے ہی معلوم ہوتی ہے اور اس پر مزید تحقیق کرنے کے لیے ہمیں قرآن سے ہی رابطہ کرنا ہے۔کیونکہ قرآن ہی ہمارے رب کا کلام ہے جو سب سے زیادہ علیم اور حکیم ہے۔یہ جاننا ہمارے لیے ضروری ہے کہ یہ آیت جس قدر واضح ، سادہ اور پختہ ہے ،یہ بات بھی اتنی ہی واضح ہے یا کوئی صورت ایسی بھی ہے جس میں کوئی معمولی سا ہی سہی ، اختیار انسان کے پاس محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ بھی جاننا ہمارے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں مزید کتنی جگہ پر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے اور اس بات کا زاویہ کیا ہے ؟ گہرائی کیا ہے ؟
وُسعت نظر:
اس مقصد کے لیے جب میں نے پورے قرآن کو اس نظریے سے پڑھنا شروع کیا تو حیران کن حد تک مجھے یوں محسوس ہوا کہ پورے قرآن میں یہی بات تو بیان کی گئی ہے ۔ پورا قرآن ہمیں ہمارے رب ہی کی تو پہچان کروا رہا ہے اور یہ بھی بتا رہا ہےکہ وہ رب کیوں ہے ؟وہ کیوں عبادت کے لائق ہے۔ پورے قرآن میں یہی تو بات بیان کی گئی ہے ہے کہ سارا اختیاراُسی کا ہے۔ کہیں اس قدر گہرائی سے اس کی چھپی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور کہیں وہ کھلی نشانیاں جو اتنی بڑی اور واضح ہیں کہ صاف ظاہر ہے کہ ان کو تخلیق کرنے والا بہت بڑا ہے۔اس قدر علم اور طاقت کے سامنے انسان کا کوئی اختیار کیونکر ہو سکتا ہے؟
پھر ہمیں یہ غلط فہمی آخر کیوں ہے کہ ہم کوئی اختیار رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں کے مالک ہیں؟ پورا قرآن ہی مجھے اس بات کو بیان کرتا محسوس ہوا کے سب کچھ اللہ کی رضا سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ جس آیت کے واضح الفاظ یہ نہیں بھی تھے اور وہ آیات جن میں گزشتہ لوگوں کی کہانی تھی اس کا مطلب اور نتیجہ بھی یہی تھا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کے اختیا ر میں کچھ نہیں پھر چاہے وہ کوئی بہت بڑا بادشاہ ہو یابہت مقرب رسول یا نبی ۔ فیصلے کا اختیار اللہ ہی کا ہے۔
وہی رحمٰن ہے، وہی کریم ہے:
جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ مجھے پورا قرآن ہی اس ایک آیت کی تصدیق کرتا محسوس ہوا اور ہر آیت ، ہر نشانی ،ہر کہا نی کا یہی مطلب تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے ۔ انسان اپنے رب کا بندہ اور غلام ہے اور انسان ہر ہر معاملے میں اس کا محتاج ہے ۔اس زاویے سے قرآن کو پڑھ کے جس طرح سے مجھے انسان کی بے بسی کا احساس ہوا وہ تو ایک پہلو ہے۔ لیکن باوجود اس کے کہ انسان خود کوئی قابل تعریف چیز نہیں،یہ بھی شدت سے محسوس ہوا کہ ہمارے رب نے ہم سے کتنی محبت کی ہے۔ سب کچھ اللہ رب العالمین کے کرنے سے ہو رہا ہے پھر بھی وہ بہت قدر کرنے والا اور محبت کرنے والا رب ہے ۔ اس نےمہربانی کو اپنے اوپر لازم کیا ہے اور وہ عطا کرتا ہی جارہا ہے اور انسان کو یہ لگتا ہےکہ وہ اپنی محنت اور علم کے بل بوتے پر یہ نعمتیں حاصل کر ر ہا ہے ۔
اللہ کی بادشاہت ہی موضو ع قرآن ہے:
پورے قرآن میں سے صرف چند آیا ت نکالنا جن کو میں اس نقطہ نظر سے بیان کرنے کے لیے آپ کے سامنے لاسکوں جو سورۃ القصص کی آیت 68 میں بیان کیا گیا ہے۔ میرے لیے ایک مشکل امر تھا لیکن اللہ کی توفیق سے میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ چند ایسی آیات آپ سب کے لیے الگ کر سکوں جو اللہ کی طاقت کا اور اختیار کاگہر ا تا ثر دل پر چھوڑتی ہیں۔ میں ان آیات کے صرف نمبر اور حوالے لکھنے کی بجائے وہ آیات ہی آپ کے سامنے بیان کرنا چاہوں گی تا کہ پڑھنے والے بھی اپنے رب کو اُسی طرح محسوس کر سکیں جیسے یہ سب لکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا۔
چُھپی نشانیاں:
(1) بے شک اللہ ہی دانے اورگٹھلی کو پھاڑنے والا ہے اور وہ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ یہ ہے اللہ چنانچہ تم کہاں بہکائے جاتے ہو! (الانعام – 95)
(2) آگاہ رہو! پیدا کرنا اور حکم صادر کرنا اسی کے لیے روا ہے۔اللہ رب العالمین بہت بابرکت ہے۔ (الاعراف – حصّہ آیت 5)
غیب کا مالک:
(3)کہہ دیجیے : میں اپنی جان کے لیے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ، مگر جو اللہ چاہے ، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیا ں حاصل کر لیتا اور مجھےکوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو ڈر ا نیوالا اور خوشخبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں۔ ( الاعراف – ۱۸۸)
(4)تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے بلکہ اکثر لوگ (یہ واضح حقیقت بھی ) نہیں جانتے ۔ (النحل – حصّہ آیت 75)
صلاحیت اور اختیار میں فرق:
(5) کیا اُنھوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا، وہ آسمانی ٖفضاوں میں مسخر ( تا بع فرمان ) ہیں۔اللہ کے سوا انہیں (فضا میں ) کوئی نہیں تھام رہا ۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ (النحل – 79 )
(6)اللہ کے سو ا کسی کی حکومت نہیں ۔ اس نے حکم دیا ہے کہ تم صرف اس کی عبادت کرو یہی سیدھا دین ہے ۔ مگر اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔ (یوسف ۔ حصّہ آیت 40)
تقدیر لکھنے والا:
(7) کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ،تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے نہ کوئی مددگار ۔ (البقرہ -107 )
(8) پھر اس نے غم کے بعد تم پر سکون نازل کیا جس سے تمہارے ایک گروہ پر اونگھ طاری ہوگئی اور دوسرا گروہ جس کے نزدیک ساری اہمیت اپنی ہی ذات کی تھی وہ اللہ کے بارے میں نا حق جاہلانہ طور پر گمان کرنے لگا ۔ وہ کہتے تھے کیا اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے ؟
کہہ دیجیےسب اختیار اللہ ہی کاہے ۔ وہ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے ہیں جو آپ ﷺ کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے ۔ کہہ دیجئے : اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا لکھا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرورنکل آتے ۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ جو کچھ تمھارے سینوں میں ہے اللہ اُسے آزمائے اور تا کہ تمہارے دلوں میں سے وسوسے صاف کر دے اور اللہ سینوں کے بھید خو ب جانتا ہے۔ (آل عمران – 154 )
مُدّبر، سب کے لیے تدبیر کرنے والا:
(9) وہی آسمان سے زمین تک سارے معاملے کی تدبیر کرتا ہے، پھر ایک دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے، وہ معاملہ اوپر اس کے پاس جاتا ہے۔ (السجّدہ -5)
(10) اسی طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی، وہ اس بادشاہ کے قانون کی رو سے تو اپنے بھائی کو نہیں رکھ سکتا تھا ۔ہم جس کے چاہے درجے بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم کے اوپر ایک زیادہ علم والا ہے۔ (یوسف حصہّ – 76)
(11) کیا اللہ سب حاکمو ں سے بڑا حاکم نہیں؟ (التین- 8 )
اللہ ہی توکل کے قابل ہے:
(12) زمین میں تمہاری جانوں پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ تو کتاب میں (لکھی ہوئی ) ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں ۔ یقینا اللہ پر بہت آسان ہے ۔تا کہ تم اس (چیز )پر غم نہ کھاو جو (تمھارے ہاتھ سے )جاتی رہے اور تم اس پر نہ اتراو جو وہ تمہیں عطا کر دے اور اللہ ہر اترانے والے ،فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ (الحدید – 23 )
(13) اور بلاشبہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رُلاتا ہے ۔ اور بیشک وہی مارتا ہےاور ہی زندہ کرتا ہے۔ (النجم -43، 44 )
خود اعتمادی ایک دھوکہ:
(14) بے شک ہم نے انہیں آزمایا جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا ۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہی اس کے پھل ضرور توڑ لے لیں گئے ۔ اور وہ ان شاءاللہ نہیں کہہ رہے تھے ۔ تو آپ کے ر ب کی طرف سے کوئی پھرنے والا (عذاب ) اس ( باغ ) پر پھر گیا ، جبکہ وہ سو رہے تھے ۔ (القلم – 17 ،18 ، 19 )
(15) وہ اپنے بندوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ خوب حکمت والا نہایت با خبر ہے۔ ( الانعام – 18 )
نہیں کو ئی طاقت سوائے اللہ کے:
(16) یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے یہ کہا کہ بیشک اللہ وہی مسیح ابن مریم ہے۔ (اے نبی ) کہہ دیجیے : پس کون ہے جو اللہ کے آگے اختیار رکھتا ہو اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلے ؟ اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جو کچھ ان دونوں کے در میان ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خو ب قدرت رکھتاہے۔ (المائدہ – 17)
(17) پھر وہ اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جو ان کا سچامالک ہے ۔ خبردارفیصلے کا سارا اختیار اُسی کو حاصل ہے ۔ اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام – 62 )
ماضی، حال اور مستقبل کا مالک:
(18) بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے جو ما وں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرئے گا اور کوئی نہیں جانتا کے وہ کس زمین میں مرے گا ، بیشک اللہ خوب جاننے والا ،خوب با خبر ہے۔ (القمان – 34)
(19) اور سب امور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ (فاطر – حصہّ 4 )
سارا ملک اُسّی کا ہے:
(20) بیشک میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے ۔ (زمین پر ) چلنے وا لا کوئی جاندار ایسا نہیں جسے اُس نے پیشانی سے پکڑ نہ ر کھا ہو، بے شک میرا رب صراط مستقیم پر ہے۔ (ھود – 56 )
(21) اور آپ کسی شے کے متعلق نہ کہیں ، بیشک میں اسے کل کرنے والا ہوں ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے ۔ اور جب آپ بھول جایئں تو اپنے رب کو یاد کریں او ر کہیں : امید ہے کہ میر ا رب اس معاملے میں رشدو بھلائی سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی کرے گا۔ (الکھف – 24 )
دلوں کو بنانے اور اُلٹ پلٹ کرنے والا:
(22) اور تم نہ چاہو گے ، مگر یہ کہ اللہ چاہے ۔ بے شک اللہ علیم و حکیم ہے ۔ (الانسان ۔ حصّہ آیت ۳۰)
(23) اور تم ( اسے ) زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کار ساز ہے اور نہ کوئی مددگار ۔ (الشوریٰ – 31 )
اللہ ہے سچا بادشاہ ہے:
(24) کیا تم نے ہم سے یو م قیامت تک پہنچنے والی قسمیں لیں ہیں کہ تمہارے لیے وہ ہو گا جو تم فیصلہ کرو گے؟ (القلم – 39)
(25) بیشک آخرت اور دنیا ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ (الیل – 13)
اختتام :
اس آرٹیکل میں جو آیات میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں وہ قرآن میں ایک سے زیادہ جگہ پر پھیر پھیر کر بیان کی گی ہیں۔ اُن ایک جیسی بیشتر آیات میں سے میں نے ایک زاویے کی ایک ہی آیت آپ کے سامنے بیان کی تا کہ انسان کے اوپر اللہ سبحان و تعالیٰ کی گرفت کس حد تک ہے ، اس کی ایک معمولی سی جھلک دیکھی جا سکے ۔
انہیں آیات کے سیاق و سباق میں اور بہت سی قرآن کی آیات ایسی ہیں جن میں انسان پر اللہ سبحان وتعالی کی گرفت بہت گہری اور مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بہت ساری آیات ایسی بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے اور اسی عمل کے مطابق سزا اورجزا کامعاملہ ہو گا۔
اللہ سبحان و تعالیٰ جب ہماری چاہت تک کے مالک ہیں تو پھراچھا بڑا چاہنے پر سزا اور جزا کیوں ہے ؟ ہم کیوں ذمے دار ہیں اپنی سوچوں اور اعمال کے ؟ یہ سوال اور اس جیسے بہت سارے سوالوں کے جواب کا سلسلہ ہم اگلے آرٹیکل سے شروع کریں گے۔ ان شاء اللہ!

ایمان والا کون ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-9
مسلمان ہونا ،نسل اور ذات پات کے نظام کی طرح دنیا میں شناخت کی علامت تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے ہاں ایمان والا کون ہے؟ اس بات کا تعین […]

عدل ہی تو ایمان ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-8
اپنے ارد گرد ہمیں بہت سے ذہین لوگ ملیں گے۔ جن سے دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کی جائے تو لگے گا جیسے وہ اس موضوع اور شعبے کو […]

حق کا انکار کرنے والے ظالم اور متکبر
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-7
انسان کا غلطی کر دینا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں۔ انسان سے خطا ء ہو جانے کے بعدہی تو اصل معاملہ شروع ہوتا ہے۔ خطاء کار […]