قرآن سے انقلاب کا آغاز
قرآن کے الفاظ اس دنیا میں موجود ہیں لیکن یہ الفاظ اس دنیا کے نہیں ۔یہ الفاظ ہمارے رب کے ہیں جو ہر غلطی اور شک سے پاک ہے۔ قرآن سے انقلاب کا آغاز ہوا ۔ اسے اس دنیا کے سب سے محفوظ ترین مقام ، رسول اللہ ﷺ کے دل پر الہام کیا گیا ہے اور باقی دلوں تک پہنچا دیا گیا ۔ پھر قیامت تک اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے خود ہی لیا ۔ اپنی اس علمی اور ذہنی جدوجہد کے اس راستے پر ہم نے قرآن ہی کو اپنے سوالات واضح کر نے اور جوابات تلاش کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اپنے رب کو قریب سے جاننے کے لیے جب ہم نے اس کی باتوں کو پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا اور بادشاہت ہی اس کتاب کا موضوع او ر اس کا مقصد ہے ۔ جو کہ سورۃ القصص کی آیت 68، اور اس کے جیسی اور بہت سی آیات میں واضح طور پر لکھا گیا ہے۔
آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے ) پسند کرتا ہے ۔ ان لوگوں کے لیے کوئی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے اوران سے کہیں اعلیٰ ہے جنہیں وہ شریک ٹھراتے ہیں۔ (القصص -68 )
گذشتہ خلاصہ:
یہ آیات ہمیں ہمارے رب کی پہچان بھی کروارہی ہے اور ہماری اپنی بھی ۔ اسکی دو اہم باتوں کو تفصیل سے جاننے کے لیے ہم نے ان کو الگ الگ کر کے لیفٹ ہینڈ سائیڈ اور رائٹ ہینڈ سائیڈ کے طور پر لکھا تھا۔
آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے ) پسند کر لیتا ہے۔
.R.H.S
ان لوگوں کے لیے کوئی اختیار نہیں
.L.H.S
اس مساوات میں ہم نے لیفٹ ہینڈ سائڈ پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ہم بحیثیت انسان خود کو کچھ نہ کچھ تو جانتے ہیں ، اپنی فطرت سے واقف ہیں اور خود کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس تحقیق سے پہلے ہم نے رائٹ ہینڈ سائیڈ کی وضاحت اور پختگی جانچنے کے لیے پورے قرآن کا مطالعہ کیا اور اُن آیات کا جائزہ لیا جو بہت واضح الفاظ میں سورۃ القصص کی آیت 68 کی تصدیق کرتی ہیں اور بلاشبہ اللہ کی طاقت کا گہرہ اثر دل پر چھوڑتی ہیں۔
عقل پر تالے:
رائٹ ہینڈ سائیڈ کے مختصر سے جائزے کے بعد ہم لیفٹ ہینڈ سا ئیڈ کی طرف آتے ہیں اور قرآن کی اُن آیات پر غور کرتے ہیں جو اللہ کی اس بہترین مخلوق کے بارے میں تفصیلات بیان کر رہی ہیں۔اس مطالعے سے وہ آیات بھی ہمارے علم میں آئی جو بظاہر انسان کا عمل اس کے اختیار میں ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ اور انہیں اعمال کے اوپر سزا اور جزا کا معاملہ ہو گا یہ تو ہم سب جانتے ہیں۔
میں اس آرٹیکل سے آغاز کر کے آگے آنے والے آرٹیکلز میں وہ آیات کے یا ان کے سیٹس پیش کروں گی جو ایک دوسرے کے ساتھ تضاد میں جاتی محسوس ہوتی ہیں۔ ہر سیٹ یا سوال ایک تالا ہے جس کی چابی تلاش کر کے ہم اسے کھولنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ تالے ایک راستے پر لگے ہیں جو سیڑھیوں کی طرح اوپر چڑھتا ہے۔ ایک ایک کر کے ہم تالے کھولتے جائے گے ، اور ایک ایک سیڑھی چڑھ کر ہی ہم ذہنی سطح کی اُس بلندی پر پہنچ سکتے ہیں جہاں ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہم کون ہیں ۔ لیفٹ ہینڈ سائڈ ہمارے لیے مکمل طور پر حل ہو جائے تو رائٹ ہینڈسائڈ کو سمجھنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ان شا اللہ!
سیٹ 1 :
اور یہ کہ انسان کے لیے بس وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی ۔(النجم-39 ) | اور تم نہ چاہوگے مگر یہ کہ اللہ چاہے، بے شک اللہ علیم و حکیم ہے۔ (الدھر-30 ) |
پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا ، تا کہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو– (یونس-۱۴ ) | حا لانکہ اللہ ہی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کوپیدا کیا ہے ۔ (الصّفٰت-96 ) |
تقابلی جائزہ:-
سیٹ ۱ میں ہمیں ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے یعنی جس چیز کے لیے ہم کوشش کریں وہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ جبکہ اس کی مخالف سمت میں لکھی آیت ہمیں یہ بتاتی ہےکہ ہم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔
سیٹ کے دوسرے حصے میں ایک طرف ہمیں یہ کہا جارہا ہے ہم عمل کریں تو ہمارے عمل دیکھے جائیں گے جبکہ اس کے مخالف سمت میں جو آیت لکھی ہے اس میں ابراہیم ؑ کی بات کا حوالہ دے کر ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ ہی نے ہمیں اور ہمارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ یعنی ہماری چاہت اور اعمال دونوں اللہ کی رضا سے ہی ممکن ہیں۔
سوالات :
سیٹ ۱ کے دونوں حصّے ایک دوسرے سے مکمل تضاد میں جاتے معلوم ہوتے ہیں ۔ دونوں باتیں ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں جس سے ذہن میں بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ ہم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے تو پھر اس کا مطلب ہے اچھا یا برُا ہم جو بھی چاہ رہے ہیں وہ چاہت اللہ سبحان و تعالیٰ ہی ہمارے دل میں ڈال رہے ہیں اچھی چاہت ہمارے دل میں ڈالی جائے گی تو ہم اچھے ہی عمل کریں گے اور اس کا اچھا اجرملے گا ۔ اور اگر اللہ سبحان و تعالیٰ برُی چاہت ہمارے دل میں ڈال رہے ہیں تو ہم برُا عمل کریں گے ۔ اور اس کی تو سزا ملے گی ۔
سوالنمبر 1 :
تو اللہ سبحان و تعالیٰ برُی چاہت ہمارے دل میں کیو ں ڈال رہے ہیں ؟ کسی کو اچھی اور کسی کو برُی چاہت دینے کا فیصلہ کیسے کر رہے ہیں؟
سوالنمبر 2 :
پھر اللہ ہی نے چاہت ڈال کر ہمارے اعمال کو پیدا کیا ہے تو ہمارے عمل کیوں دیکھے جائیں گے ؟ ہم ان اعما ل کے ذمے دار کیسے ہوئے؟
المقسطُ، سب سے بڑا منصف:
اب ہم قرآن سے ہی اپنے ان سوالات کا حل ڈھونڈتے ہیں کہ اللہ سبحان وتعالیٰ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ کسی کو اچھی اور کسی کو برُی چاہت کیوں دے رہے ہیں؟ یہ اچھی اور برُی چاہت دینے کا فیصلہ اللہ سبحان و تعالیٰ کس بنیاد پر کرتے ہیں ؟ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ظلم ہمارے رب کا وصف ہی نہیں ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالیٰ سے ذیادہ انصاف کرنے والا کوئی نہیں ۔ وہی سب سے برُا منصف ہے۔ اور اپنے بندوں کو بھی انصاف کا حکم دیتا ہے ۔
کہہ دیجیے : میرے رب نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (حصہّ آیت 29 -الا عراف )
اور یہ (جان لو) کہ بیشک اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (حصہّ آیت 51 – الانفال)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ سبحان و تعالیٰ کسی کے دل میں اچھی چاہت ڈال کر اس کے اعمال اچھے بنا رہے ہیں اور کسی کے دل میں برُ ی چاہت ڈال کر اس کے اعمال برُے بنا رہے ہیں تو یقینا یہ فیصلہ بھی انصاف کے ساتھ ہی کیا جارہا ہے ۔ اور کسی برُے عمل کرنے والے شخص کے ساتھ کوئی ذیادتی نہیں کی جارہی ۔ لیکن اللہ سبحان و تعالیٰ اس قدر اہم فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہوتی ہے ۔
کامیابی کی کنجیاں:
اس کا جواب مجھے قرآن کی جن آیتوں میں ملا وہ میں آپ کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی پوری کوشش کروں گی اور مجھے اس کی توفیق ملنا اللہ کی رضا اور اس کی مدد سے ہی ممکن ہے۔
ٍ1 ) اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے تو وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کر رہے ہو ، بلاشبہ وہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے ۔ (حصّہ آیت 7 - الزمر )
2 ) کیا ( یہ مشر ک بہتر ہے یا ) جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے اور کھڑے ہوئے عبادت کرتا ہے جب وہ آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے؟ کہہ دیجیے:کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے ، برابر ہو سکتے ہیں ؟بس عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔ (آیت 9 - الزمر)
3) جو غور سے بات سنتے ہیں ، اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ، وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور وہی لوگ عقل والے ہیں ۔ (آیت18 -الزمر)
قرآن سے انقلاب کا آغاز
یہ تینوں آیات ایک ہی سورۃ ، سور ۃ الزمرکی ہیں۔ آیات کے نمبر سے واضح ہو رہا ہے کہ یہ آیات اسی ترتیب کے ساتھ قرآن میں موجود ہیں جیسےمیں نے لکھی ہیں ۔ ان کے درمیان والی آیات اس موضوع کے ساتھ دوسرے پہلووُں کو بھی بیان کرتی ہیں اس لیے میں نے اُن کو نکال کر صرف ہمارے موضوع کو بیان کرتی ہوئی آیات آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ان آیات میں سے غور طلب نقاط کو میں نے رنگ کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ یہی و ہ پاس ورڈ ہے جس سے ہمارا تالا کھل جائے گا۔ہمارے دوسرے سوال کا آخری حصہّ تھا کہ "ہم ان اعمال کے ذمے دار کیسے ہوئے؟” آئے یہیں سے شروع کرتے ہیں۔ ہم رنگ سے نمایاں کئے گئے اپنے رب کے الفاظ پر غورو فکر کریں گے۔
آیت ۱:
ٍ1 ) اور کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے تو وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کر رہے ہو ، بلاشبہ وہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے ۔ ( حصّہ آیت 7 - الزمر )
اس ضمن میں جب قر آن پر تدبرُ کیا جائے تو سب سے پہلے یہی بیانیہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ:
"اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔”
یعنی ہم خود ہی ذمے دار ہیں لیکن وہ کیسے؟ یہی ہمارے سوالات کا آخری حصہ ہے اور ہمیں اسی بات کو سب سے پہلے ثابت کرنا ہے کہ ہم خود ہی ذمے دار ہیں۔ اللہ سبحان و تعالیٰ ہی ہمارے دلوں میں اچھی اور برُی چاہتیں ڈال رہے ہیں ۔ تو کیوں ڈال رہے ہیں ، آخر کس بنیاد پر ؟ تو جواب بھی اسی آیت میں موجود تھا:
بلاشبہ وہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے ۔
یہ بھی با لکل درست بات ہے ، اور اس میں ہمیں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہیں جو ہمارے دل کے رازوں سے واقف ہو سکے ۔ وہی جانتاہے جس نے دل بنایا ہے ۔ تو لوگوں کے دلوں میں ایسی کونسی باتیں ہیں جن کی بنیاد پر اللہ سبحان وتعالیٰ ان کے ساتھ اچھا ئی یا برُائی کا ارادہ کرتے ہیں۔ ان کے دل میں اچھی چاہت یا برُی چاہت ڈالنے کی وجوہات کیا ہیں ؟ وجوہات اگلی ہی آیات میں موجود ہیں۔
آیت۲:
2) کیا ( یہ مشر ک بہتر ہے یا ) جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے اور کھڑے ہوئے عبادت کرتا ہے جب وہ آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے ؟ کہہ دیجیے: کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے ، برابر ہو سکتے ہیں ؟بس عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔ (آیت 9 - الزمر)
اس سے اگلی آیت میں اللہ سبحان و تعالیٰ نے بات ان لوگو ں کے دلوں کے رازوں سے شروع کی ہے اور ختم دماغ پر کی ہے۔ جن کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا جاتا ہے اور اچھی چاہت سے نوازا جاتا ہے ان کے دل کے معاملات یہ ہیں کہ:
1- وہ اپنے دل میں اللہ اور آخرت کا ڈر رکھتے ہیں۔
2- اللہ سے رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
یعنی وہ اپنے رب کو پہچانتے ہیں ۔ اس سے آگے اللہ سبحان و تعالیٰ نے ڈر اور امید رکھنے والے لوگوں کی خصوصیت بیان کی ہے کہ :
علم
عقل
یعنی علم اور عقل وہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی انسان کے دل میں اللہ کا ڈر اور رحمت کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اس آیت کے الفاظ کی ترتیب اور اس کا سوالیہ انداز
"کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے ، برابر ہو سکتے ہیں ؟بس عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔ " اللہ سبحان و تعالی ٰ کے انصاف کی دلیل ہے۔
ان میں سے علم وہ چیز ہے جس سے انسان کے دل میں اللہ کا ڈ ر اور رحمت کی امید پیدا ہوتی ہے لیکن اس علم کا ادراک کروانے والی چیز عقل ہے۔ اس کا مطلب ہے عقل وہ چیز ہے جس کے ساتھ حاصل شدہ علم کو صحیح طریقے سے عمل میں لایا جاتا ہے۔ جس کو اللہ نے” نصیحت پکڑنا ” کہا ہے کہ
” عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔"
آیت ۳:
3 ) جو غور سے بات سنتے ہیں ، اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں ، وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور وہی لوگ عقل والے ہیں ۔ (آیت18 -الزمر)
سینوں کے رازوں اور خصوصیات کے بعد تیسری آیت ہیں اللہ سبحان و تعالیٰ نے ان کے رویے کے بارے میں بات کی ہے ۔اور دو باتیں واضح کی ہیں، ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کی طلب رکھتے ہیں اس لیے
غور سے با ت سنتے ہیں ۔
اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔
یعنی ان تین آیات میں تین ہی چیزیں بتائی گئی ہیں جو نیچے سے اوپر کی طرف آتی ترتیب کے ساتھ میں نے اس ٹیبل میں لکھی ہیں تا کہ آپ کے ذہین میں بنیاد سے سطح تک آتی چیز کا نقشہ بن سکے۔
اچھی چاہت سے نوازے گئے لوگ | بُری چاہت سے نوازے گئے لوگ : |
رویہ: غور سے بات سنتے ہیں اچھی بات کی پیروی کرتےہیں | رویہ: سننے کے لیے ہی تیار نہیں اپنی غلطی پر اڑ جانے والے |
خصوصیت: علم عقل | خصوصیت: لاعلم بے عقل |
سینے کے راز: اللہ کا ڈر اللہ سے رحمت کی امید | سینے کے راز: اللہ سے بے خوفی اللہ کی رحمت سے مایوسی |
اللہ سبحان و تعالیٰ جب اپنے بندے کو دیکھتے ہیں تو بات شرو ع ہی دل سے ہوتی ہے۔ اس لیے قرآن میں یہ ترتیب شروع ہی سینے کے رازوں سے ہوتی ہے۔
نتیجہ:
پہلا سوال جس کا جوا ب ہم نے قرآن سے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی وہ یہ تھا:
سوالنمبر1 :
تو اللہ سبحان و تعالیٰ اچھی یا برُی چاہت ہمارے دل میں کیو ں اور کس بنیاد پر ڈال رہے ہیں ؟
اللہ سبحان و تعالی انسان کے دل کو دیکھ رہے ہیں۔ دل کے راز ( اللہ کا خوف اور رحمت کی امید) وہ دو بنیادی چیزیں ہیں جن پریہ فیصلہ کیا جاتا ہےکہ کس کو کیسی چاہت ملے گی۔ اور دل میں یہ دونوں چیزیں علم اور عقل سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور آیت ۳ کے آخری حصے میں اللہ سبحان و تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ "وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے اور وہی لوگ عقل والے ہیں ۔” ہدایت (یعنی اچھی چاہتیں یا اچھے اعمال کی توفیق) انہیں لوگوں کو دی جاتی ہیں جن میں اوپر بیان کی گئی خصوصیات ہوتی ہیں۔
اس سوال کےجواب میں ہم اس نتیجے پر پہنچےکہ:
اللہ ہی نے ہدایت(نیکی کی چاہت) دی تو آ ئی ورنہ خود انسان کی چاہت بھی اس کے اختیار میں نہیں۔ اور کس کو کیسی چاہت دی جا رہی ہے اس کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
اختتام:
علم و عقل وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اگر موجود ہوں تو دل میں ڈر بھی پیدا ہو گا اور اللہ سے رحمت کی امید بھی۔ پھر ہی انسان اچھی چاہت حاصل کر سکے گا۔ اور چاہت کے مطابق عمل کر سکے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ:
کیا پھر یہ دونوں خصوصیات علم اور عقل خود سے حاصل کرنا انسان کے بس میں ہے ؟کیا یہاں کوئی اختیار انسان کے پاس ہونے کی صورت موجود ہے؟
اور اسی سیٹ ۱ کا دوسرا سوال :
پھر اللہ ہی نے چاہت ڈال کر ہمارے اعمال کو پیدا کیا ہے تو ہمارے عمل کیوں دیکھے جائے گے ؟ ہم ان اعما ل کے ذمے دار کیسے ہوئے؟
یہ وہ اگلا تالے ہے جن کو ہم اگلے آرٹیکلز میں کھولنے کی کو شش کریں گے اِن شا اللہ!
ایمان والا کون ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-9
مسلمان ہونا ،نسل اور ذات پات کے نظام کی طرح دنیا میں شناخت کی علامت تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے ہاں ایمان والا کون ہے؟ اس بات کا تعین […]
عدل ہی تو ایمان ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-8
اپنے ارد گرد ہمیں بہت سے ذہین لوگ ملیں گے۔ جن سے دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کی جائے تو لگے گا جیسے وہ اس موضوع اور شعبے کو […]
حق کا انکار کرنے والے ظالم اور متکبر
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-7
انسان کا غلطی کر دینا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں۔ انسان سے خطا ء ہو جانے کے بعدہی تو اصل معاملہ شروع ہوتا ہے۔ خطاء کار […]