قرآن ایک معجزہ اور زندہ کلام ہے
موجودہ دور میں انسان اور با لخصوص مسلمان جس قدر خستہ حالی ، گمراہی اور فتنوں کا شکار ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ غرق ہو جانے کے دہانے پر ہیں۔ اس سے پہلے بھی طاقت ور قومیں موجود رہی ہیں اور ان کو ہم سے بھی ذیادہ علم اور نعمتیں عطا ہوئی تھی۔ اُن کی تباہی کی وجہ پر غور کیا جائے تو اپنے اس وقت کے حالات کی وجہ اور حل دونوں سمجھ میں آتے ہیں۔ اپنی جڑ کو خودی کاٹ کر پھینک دیا جائے تو یہ ہی حال ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے۔ اس قدر ذلت اور پستی ہمارے لیے ا للہ کی رضا سے ہی ممکن ہے اور ہمارے اوپر اللہ کے اس فیصلے کی وجہ ہمارا ترک قرآن ہی ہے ۔ ہم نے اپنے رب کی باتوں کو ہی پس پشت ڈال رکھا ہے۔ قرآن ایک معجزہ اور زندہ کلام ہے۔ اور قرآن سے واپس جڑنا ہی ہمارے ہر مسئلے کاواحد حل ہے۔
"آپ کا ر ب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے ) پسند کر لیتاہے ان لوگوں کے لیےکوئی ا ختیار نہیں ، اللہ پاک ہے اور ان سے کہیں اعلی ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔" ( القصص - 68 )
مستند علمی ذریعہ:
اس آیت کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم جان لیں کے سوچ کے جس زاویئے اور سمت کو اختیار کرنے جارہے ہیں وہ ٹھیک راستہ ہے بھی یا نہیں ۔علم کے اس ذریعے کا بالکل صیح تر ہونا مجھ سمیت تمام پڑھنے والوں کے لیے بلا شبہ بہت ضروری معاملہ ہے۔ ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو منطق، وجوہات اور دلائل ہم پیش کر رہے ہیں ۔ وہ با لکل صحیح ہیں۔ اس مستند ماخذ تک پہنچنے کے لیے ہمیں قرآن کی اسی آیت پر ہی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
"آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہےاور (جسے چاہتا ہے) پسند کرتا ہے۔”
ان لوگوں کے لیےکوئی ا ختیار نہیں،
اللہ پاک ہے اور ان سے کہیں اعلی ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
واحد اور حقیقی پہلو:
"آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہےاور (جسے چاہتا ہے) پسند کرتا ہے۔”
قرآن کی اس آیت کا صرف ایک ہی پہلو ہے جو حقیقت یعنی حق ہے۔اللہ نے بھی وہی پہلو یعنی حق بیان کیا ہے اور ہمیں بھی اسی پہلو سے بات سمجھ میں آتی ہے۔ اگر ہم کسی غیر مسلم سے بھی پوچھیں گے اسے کس نے پیدا کیا ہے تو دل کی گہرایوں میں وہ یہ بات ضرور جانتا ہے کہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے۔انسان سمیت ہر ذی روح قلبی طور پر اپنے رب کو جانتا ہے۔یہ تو ان کا ماحول اور ان کے آباواجداد ہیں جو قلب میں موجود اس بات کو دبا کر گمان کو ایسے پا لش کر دیتے ہیں کہ وہ حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں اور قلبی احساس اور انتہائی صاف اور کھلی نشانیوں پر غور وفکر نہیں کرتے ۔یہ کمزوری انسان کی طرف سے ہے۔ ورنہ اس بات کا حقیقٰی پہلو ( جو اللہ نے اپنے کلام ہیں بیان کیا ہے) اور ظاہری پہلو جو اس دنیا میں واضح طور پر ظاہر ہے ( یعنی نشانیاں ) ایک ہی ہے۔ جیسے کہ قرآن کی ا سں آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے:
کہہ دیجیے: تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے ،یا کانو ں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون (دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتا ہے ؟ تو وہ (کافر ) ضرور کہیں گے : اللہ ! تو کہہ دیجیے :کیا پھرتم ( اللہ سے) ڈرتے نہیں ؟ ( یونس-31 )
یعنی اللہ کی بیان کردہ اس بات کا ایک ہی پہلو ہے جو کہ حقیقت (حق )ہے ۔ جو ظاہری اعتبار ( کھلی نشانیوں) سے بھی ثابت ہوتا ہے، کوئی تسلیم کرے یا انکار کرے وہ الگ بات ہے۔ اور اس کا احساس ہر شخص کے دل میں موجود ہے۔
ظاہری پہلو:
"ان لوگوں کے لیے کوئی اختیار نہیں ۔”
اب اس آیت دوسرے حصے کا ایک پہلو تو یہی حقیقت ہے جو اللہ سبحان وتعالی نے بیان کی ہے جبکہ دو سرا پہلو یہ ہے کہ ظاہری طور پر ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم خود ہی اپنی زندگی کے مالک ہیں اور اپنی محنت اور قابلیت سے اس دنیا کو تسخیر کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ ظاہری پہلو صرف غیر مسلموں کا عقیدہ نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کی اکثریت اسی ظاہری پہلو کو ہی سچ سمجھ کر اس کی بنیاد وں پر زندگی گزار رہے ہیں ۔
سچ اور جھوٹ میں فرق:
یاد رہے کہ حقیقت اور ظاہر میں وہی فرق ہے جو سچ اور جھوٹ میں ہے۔ یہ دونوں بالکل مخالف سمتوں کی دو باتیں ہیں۔ حقیقت ( حق) وہی ہے جو اس آیت میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اور ( ظاہر) جھوٹ وہ ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں کہ انسان کا کچھ نہ کچھ اختیار تو لازمی ہے ۔ اور اس جھوٹ کی بنیاد پر زندگی کے معاملات سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے بہت ساری تکلیفوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ انسان کے پاس اختیار ات ہیں یا نہیں یہ سب سمجھنے کے لیے بہت سارے سوالات ہیں جن کے جواب ہمارے پاس موجود نہیں ۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کسی ایسے شخص یا ذرائع سے پوچھیں جس کو بیچ وا لے سارے جواب معلوم ہوں ۔
جب اپنے قریب موجود اہل علم سے اس بارے میں بات کرتے ہیں تو ایک دو سوالات کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے اور اس جبر اور قدر والے موضوع پر ذیادہ بحث کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
ایک بوجھل خاموشی:
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم مکمل طور پر اس بات کو ثابت کر دیں کہ ،"ان لوگوں کا کوئی اختیار” نہیں تو جدید زمانے کے تمام سائنسی نظریات ،منظق اور عمل کے لیے ضروری محرکات ختم ہو جاتے ہیں ۔اگر ثا بت ہو گیا کہ انسان کا کوئی اختیار نہیں تو پھر یہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے۔ لوگوں کو نیک عمل پر کیسے ابھاریں گے؟ اور برائیوں سے کیسے روکیں گے؟ جب ہمارے اختیار میں ہی کچھ نہیں تو کوئی بھی عمل کیوں کریں؟ اچھائیاں بھی اللہ کی مرضی سے ہو رہی ہیں اور گناہ بھی ۔ ہمارا تو کوئی اختیار ہی نہیں۔ تو بس اسی بات پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ مزید سمجھے اور غوروفکر کیے بغیر یہ مان لیا جائے کہ سارا اختیار اللہ ہی کا ہے ۔ اس پر زیادہ بحث ہی نہ کی جائے ۔اسی خاموشی میں جائےپناہ نظر آتی ہے۔بلاشبہ یہ خاموشی ایمان ہی کی نشانی ہےکہ عقل کو کوئی بات سمجھ نہیں بھی آرہی پھر بھی اسے تسلیم کر لیا جائے ۔
یہ خاموشی ہی الجھن کی وجہ ہے:
لیکن مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے کہ تسلیم تو کر لیا ہے لیکن اس بات کا یقین کہ ” انسان کے اختیار میں کچھ نہیں ” دلوں میں موجود نہیں۔ہماری ذاتی زندگیا ں اور فیصلے اس حقیقت کے برعکس نظر آتی ہیں ۔ ہم اللہ کے حکم کو پیٹھ پیچھے ڈال کر اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتاً خسارہ ہی اٹھاتے ہیں۔ اس تضاد کی وجہ وہی خاموشی ہے جو درحقیقت تذبذب اور سوالات کے شور سے بھری ہوئی ہے لیکن ہم اس کو دبائے جارہے ہیں۔اس خاموشی کی وجہ سے ایمان والے لوگوں میں سے بھی چند ہی لوگ ہیں جو حقیقتًا ایمان پر قائم ہیں۔اکثریت کےقول اور فعل میں تضاد ہے اور وجہ یہی ہے کہ تما م اختیار اللہ کا ہے ،اور انسان کا کوئی اختیار نہیں کے بیچ میں جو تمام سوالات ہیں ان کے جوابات سےدل میں "اللہ کی طاقت کا شعوری احساس”جوپیدا ہونا چاہئے وہ احساس ہی غائب ہے ۔جب انسان پر یہ واضح ہو جائے کہ میرا کوئی اختیار نہیں تو پھر جس کے اختیار میں سب ہے اس سے ڈر نا لازم ہو جاتا ہے۔ "ڈر” اس عضر کی غیر موجودگی بے شمار انفرادی اور سماجی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اور وجہ صرف ان سوالات کے جوابات کا علم نہ ہونا ہے۔
قرآن ایک معجزہ اور زندہ کلام ہے:
اللہ کے قادر مطلق ہونے کا شعوری احساس تبھی ممکن ہے جب دل میں اللہ کے راستے کی طلب ہو۔ دل میں سوا لات بھی ہوں اور ان کے واضح جواب بھی موجود ہوں ۔ لیکن یہاں مسئلہ وہی در پیش ہے کہ:
ہمیں ان کے جوابات بتائے گا کون؟
کون ہے جو واقعی اس بات کی حقیقت سے واقف ہے اور جو بتائے گا سچ ہی بتائے گا؟
اس نقطے پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں یہ بات بتا کون رہا ہے؟ ہمیں یہ بات قرآن سے پتا چل رہی ہے تو یہ بات ہمیں خود اللہ سبحان وتعالی ہی بتا رہے ہیں ۔کہ ” ان لوگوں کا کوئی اختیار نہیں" اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہی علیم اور حکیم ہے اور وہ ہر بات جانتا ہے۔اس کا مطلب ہے ہمیں اللہ ہی سے رجو ع کی ضرورت ہے۔
تو اللہ سے کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے؟
اور اللہ کی باتیں کیسے سُنی جاسکتی ہیں؟
یقین کے ذرائع ابلاغ :
یہی وہ پہلی رکاوٹ ہے کہ جب ہم قرآن میں موجود کسی بات پر غور کرتے ہیں اور دل میں سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔جب ہمیں کوئی شخص ایسا نہیں ملتا جس کے پا س سارے جوا بات ہوں ،اور اللہ سے کیسے پوچھیں یہ بھی سمجھ میں نھیں آتا تو اس معاملے کو ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔مزید غور کرتے ہی نہیں ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیےہم جان لیں کہ یہ صرف ایک گٍرہ ہے۔اس کو تحمل مزاجی سے کھو ل کر ہم جوابات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔
کسی بھی جگہ موجود شخص یا ذات سے رابطے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک پیغام بھیجنے والا آلہ اور ایک پیغام مو صول کرنے والا آلہ موجود ہو۔تو یہ دونوں آلات ہمارے پاس موجود ہیں۔
پیغام بھیجنے والا آلہ —- نماز اور دعا
پیغام موصول کرنے والا آلہ —- قرآن
ایک گرہ:
یہ دونوں آلات تو ہم میں سے ہر مسلمان کے پاس موجود ہیں۔دقت یہ نہیں کہ ہمیں ان کو استعمال کرنا نہیں آتا بلکہ مسئلہ اب یہ ہے کہ ان کو استعمال کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ۔ جھوٹ اتنا ذیادہ دلکش ہو گیا ہے کہ ہم اسی کو دیکھتے رہنا چاہتے ہیں۔سچ جاننے کی طلب ہی باقی نہیں رہی ۔لیکن وہ لوگ جو اس جھوٹ کے ہاتھوں زخم کھا چکے ہیں اب سچ جاننا چاہتے ہیں ۔وہ لوگ جنھوں نے بے بسی کو وا قعی میں محسوس کیا ہے اور جان گئے ہیں کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پھر وہ اس دنیا ہیں موجود کیوں ہیں؟
نماز بھی پڑھنے لگے ہیں ، دعا بھی مانگتے ہیں،اور قرآن بھی پڑھ رہے ہیں۔پھر جوابات کیوں نہیں مل ر ہے ؟
اگر قرآن ہی میں سارے حل موجود ہیں تو قرآن پڑھنے سے ہمارے مسئلے حل کیوں نہیں ہو رہے ؟
آیئے گرہ سلجھائیں:
قرآن سے ہمیں بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں لیکن وہ باتیں اکثر و ہی ہیں جو ہمیں پہلے ہی سے پتہ ہیں۔ بہت ساری باتیں قرآن میں ایسی دکھائی دیتی ہیں جن کا خود سے کوئی تعلق ہی محسوس نہیں ہوتا ۔قانون ، احکامات ، اللہ کی رحمت ،سزا اور جزا ، یہ سب تو سمجھ میں آتا ہے لیکن پھر بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ آخر یہ ہمیں بتائی ہی کیو ں جارہی ہیں ؟
اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ باتیں ہی غیر ضروری ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی نہیں کہ یہ آلہ ٹھیک نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اندر وہ آگ جل ہی نہیں رہی ۔ وہ طلب اس طرح سے موجود ہی نہیں۔ ہمارے سوالات ہی واضح نہیں۔ہم سو جانا اور دیگر مشغلوں میں مصروف ہو جانا زیا دہ آسا ن سمجھتے ہیں بجائے اسکے کہ اس کشمکش سے نکلنے کے لیے فکر کا راستہ اپنایا جائے ہم اس سب سے فرار ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ وقت گزر جاتا ہے ۔تکلیفوں کی شدتیں کم ہو جاتی ہیں۔ اور پھر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کسی فکری محنت اور جدوجہدکی۔تذبذب اور خاموشیاں ویسے ہی برقرار رہتی ہیں۔ اس گہرےسیاہ سمندر میں ہم کوئی آہٹ ہونے ہی نہیں دیتے۔ یہ مستقل خاموشی دراصل ہماری اخلاقی موت کی نشانی ہے۔
سچائی کی طلب:
صحیح راستے کی طلب ہی وہ چیز ہے جو ہمیں جوابات سمجھنے کے قابل کر دیتی ہے۔جب سوال ہی موجود نہ ہوں ۔ہم نے کوئی سوال پوچھا ہی نہ ہو اور کوئی شخص آکر ہمارے سامنے سارے واقعات اور منطق بیان کرنا شروع کر دے تو ہم چند ناموں اور باتوں کے علاوہ اس کی ساری باتیں اپنے لیے غیر ضروری ہی سمجھیں گےاور سوچیں گے پتہ نہیں یہ شخص ہمیں یہ سب کیا بتاتا چلا جارہا ہے ؟اور کیوں بتا رہا ہے۔؟ ہمیں اس کی باتوں کی وجہ ہی سمجھ نہیں آئے گے ۔ کیونکہ ہم نے اس زاوئیے سے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ، نہ اس سے کچھ پوچھا ہے۔ ہم مطابقتہی محسوس نہیں کر سکیں گے ۔ یہی ہو رہا ہے ہمارے اور ہمارے قرآن کے ساتھ ۔ہمارے پاس وہ طلب ہی موجود نہیں!
اختتام:
اللہ سبحان وتعالی نے انسان کو تخلیق کر کے کسی مشین کے ساتھ صارف کے لیے آنے والے ہدایت نامے کی طرح قرآن بھی انسان کے ساتھ بھیج دیا ہے۔جس میں اس کے سارے مسا ئل کا حل اور تمام جوابات موجود ہیں۔ قرآن ہی میں ہمارے رب کی باتیں ہیں جو اس نے ہم سے ہی کی ہیں۔ہمیں اپنے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی ہر خرابی کا حل اسی ہدایت نامے سے نکالنا ہے۔ جو جوابات ہمیں درکار ہیں ان کے لیے ہمیں قرآن سے ہی رابطہ کرنا ہے۔ وہی اللہ کا کلام ہے جو ہر غلطی اور شک سے پاک ہے، اسے شیطان سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی باتوں کو جاننے کے لیے قرآن ہی علم کا سب سے ذیادہ مستند ذریعہ ہے ۔
سورۃ القصص کی آیت 68 سے ہمیں یہ معلوم ہوا تھا کہ ساری طاقت اللہ ہی کی ہے، آیت کے پہلے دو حصوں کو ہم نے کچھ اس طرح تقسیم کیا تھا:
وہ جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے لیے کوئی اختیار نہیں۔
ان دونوں باتوں کو اسی توازن میں جاننے سے پہلے ہمیں پورے قرآن کا جائزہ لینا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور کتنی جگہ ا یسی آیات موجود ہیں ۔ ہمیں ان میں سے چند اہم آیات کو اس لیے ضرور پڑھ لینا چاہئے تا کہ ان سے مکمل طور پر اللہ کی رضا اور اس کے اختیار کے مستحکم ہونے کا جو تا ثر دل میں پیدا ہوتا ہے وہ محسوس کر سکیں۔
ایمان والا کون ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-9
مسلمان ہونا ،نسل اور ذات پات کے نظام کی طرح دنیا میں شناخت کی علامت تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے ہاں ایمان والا کون ہے؟ اس بات کا تعین […]
عدل ہی تو ایمان ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-8
اپنے ارد گرد ہمیں بہت سے ذہین لوگ ملیں گے۔ جن سے دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کی جائے تو لگے گا جیسے وہ اس موضوع اور شعبے کو […]
حق کا انکار کرنے والے ظالم اور متکبر
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-7
انسان کا غلطی کر دینا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں۔ انسان سے خطا ء ہو جانے کے بعدہی تو اصل معاملہ شروع ہوتا ہے۔ خطاء کار […]