ایک نور مسلسل
علم محض الفاظ کا ذخیرہ نہیں، بلکہ یہ وہ بصیرت ہے جو ایک نور مسلسل کی طرح انسان پر نچھاور ہوتی ہے۔ جو اس روشنی کو استعمال کر کے دیکھنا چاہے اسے بہت کچھ نظر آنے لگتا ہے۔ اور جس کو نظر آنے لگتا ہے وہ اندھیرا اور غفلت اپنے لیے نا پسند کرنے لگتا ہے۔راستہ صاف نظر آرہا ہو تو بھاگ کر منزل پر کون پہنچنا نہیں چاہتا۔ وہ سیدھا راستہ ،جس کے دونوں طرف حدیں ہیں۔ اور وہ راستہ آگے کی طرف نہیں بلکہ سیدھا اوپر کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اللہ کی رضا وہ لا محدود مقصد زندگی ہے جو انسان کو چلنا نہیں، اڑنا سیکھادیتا ہے۔
(1) اور جو لوگ اللہ کے سوا شریکوں کو پکارتے ہیں وہ ( کسی اور چیز کی ) پیروی نہیں کرتے مگر صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں ۔ اور وہ محض قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ (یونس - حصہ 66)
(2) وہی (اللہ ) ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی ، تاکہ اس میں سکون (حاصل ) کرو اور دن کو روشن بنایا ۔بیشک اس میں بہت بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔ (یونس - 67 )
(3) انہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ (اولاد ) سے پاک ہے ، وہ بے پرواہ ہے، اسی کے لیے ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ تمھارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ۔ کیا تم اللہ کی بابت وہ بات کہتے ہو ، جو تم نہیں جانتے ۔ (یونس - 68 )
(4) ( اے نبی ) کہہ دیجیے : بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے ۔ (یونس - 69 )
(5) پھر ہم نے نوح کے بعد کئی رسول بھیجے انکی ( اپنی اپنی ) قوم کی طرف ، تو وہ انکے پاس واضح دلائل لے کر آئے ، تو پھر بھی نہ ہوئے کہ وہ اس (ہدایت ) پر ایمان لے آتے جیسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے ۔اسی طرح ہم حد سے گذرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ (یونس -74 )
گذشتہ خلاصہ:
سورۃ یو نس کی منتخب کردہ پانچ آیات میں سے پہلی تین کی وضاحت سے یہ بات کافی حد تک ہمارے لیے واضح ہو گئی تھی کہ:
"علم اور عقل حاصل کرنے میں انسان کا کوئی اختیار نہیں”
علم و عقل دونوں اللہ سبحان و تعالیٰ کے ہی عطا کر دہ ہیں۔ اوراس میں دونوں طرح کے علم (دینی اور دنیا وی) شامل ہیں۔ انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ اللہ کی ان رحمتوں اورنعمتوں کی تقسیم میں کوئی ردو بدل کر سکے ۔ یہ بات بھی گذشتہ آرٹیکل میں ہم جان چکے ہیں کہ انسان محدود ہے ۔ انسان کا علم اور اسکی عقل تجربات اور عمر کے ساتھ وسیع ہوتے ہیں مگر وسعت کا یہ معاملہ بھی مکمل طور پر اللہ کی رضا کے زیر اختیار ہے ۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے غور وفکر کے لیے سارے دلائل کھلی نشانیوں کی صورت میں فراہم کر دیئے ہیں اور ان کو استعمال میں لانے کے لیے بنیادی عقل بھی ہر شخص کے پاس موجود ہے تو اب وہ سوال جن کے ساتھ ہم نے پچھلے آرٹیکل کا اختتام کیا تھا وہ یہ تھے :
(1) نشانیوں کی صورت میں علم اور بنیادی عقل تو ہرشخص کے پاس موجود ہے تو پھر آخر مسئلہ کہاں پیدا ہو رہا ہے؟
(2) کیا یہ دنیا اور اس کی ساری نشانیاں جو اللہ سبحان و تعالی ٰ نے تخلیق کر دی ہیں ،انسان کو اپنے رب تک پہنچانے کے لیے کافی ہیں؟
آئیے اب چوتھی آیت پر غورو فکر کرتے ہیں اور ان سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں۔
آیت۴:
اے نبی ) کہہ دیجیے : بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس- 69 )
خود کو ہی فریب دیتے ہیں:
اس آیت میں دو باتیں موجود ہیں جن کو میں نے رنگ کے ساتھ نمایاں کیا ہے وہ ہمارے اوپر والے تالے کی چابی ہیں۔
اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں
کوئی بھی بات جھوٹ اس وقت ہوتی ہے جب سچ بات ہم دل میں جانتے ہوں، پھر بھی اُسے چھپا لیں اور زبان سے کچھ اور کہہ دیں تو وہ زبان سے نکلنے والی بات جھوٹ ہوگی ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دلائل کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اُ ن کی سچائی سے واقف بھی ہوتے ہیں۔ جو شخص جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اس کو واضح طور پر یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ غلط بیانی کر رہا ہے۔ اور سچ وہ ہے جو اس نے دل میں چھپا لیا ہے۔ وہ سچ کو جھٹلانے کے لیے دلائل کو پس پشت ڈال کر گمان کی طرف جانا پسند کرتا ہے ۔
گمان یعنی وہ باتیں ،جو انسان خود یا اس کے بڑے خود ساختہ مفروضے قائم کر لیتے ہیں اور ان مفروضوں کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ۔ جو دلائل موجود ہوتے ہیں، وہ ان گمانوں کو غلط ثابت کر رہے ہوتے ہیں ۔اور یہ سچ، وہ دل میں جانتے ہوتے ہیں۔ ساری نشانیوں کو پہچان جانے کے باوجود وہ اپنے گمان پر قائم رہنا پسندکرتے ہیں اور زبان سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں اللہ سبحان و تعالیٰ نے کہا ہے کہ :
وہ فلاح نہیں پائیں گے
وہ فلاح یعنی بھلائی ہی نہیں پائیں گے ۔ وہ سچ جان جانے کے بعد بھی اُسے قبول نہیں کر رہے۔ اللہ کو دل میں جگہ ہی نہیں دے رہے، تو کیسے دل میں ڈر اور ر اللہ سے رحمت کی امید پیدا ہو ؟ وہ اپنے لیے جو پسند کر تے ہیں وہ بُرا ہے، تو بری ہی چاہتوں کے حقدار ہوئے اور فلاح یعنی ہدایت نہیں پائیں گے ۔ برُے عمل ان کا نصیب ٹھہرے! وہ لوگ سچ سے واقف ہونے کے باوجود اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ یہ بات ہمیں اُسی ذات سے پتہ چل رہی ہے جس نے انسان کو، اس کے دل اور تمام اعضاء کو بنایا ہے ۔ اور وہ سینے کے را زوں سے اچھی طرح واقف ہے ۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہور ہی کہ کسی شخص نے دنیا کی نشانیاں دیکھ کر بھی ایک با ر اللہ پر جھوٹ باندھ دیا تو اب نہ وہ ڈر حاصل کر سکے گا نہ اُمید ۔ اور یہیں پر جہنم اُسکا مقدر ہو جائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ !
آیت ۵
" پھر ہم نے نوح کے بعد کئی رسول انکی ( اپنی اپنی) قوم کی طرف بھیجے ، تو وہ انکے پاس واضح دلائل لے کر آئے ، تو ( پھر بھی) نہ ہوئے کہ وہ اس ( ہدایت ) پر ایمان لے آتے جیسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے ۔ اسی طرح ہم حد سے گذرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔" (یونس -74 )
وہ عطاء ہی عطاء:
"کئی رسول بھیجے”
بلا شبہ اللہ سبحان و تعالیٰ رحمٰن اور رحیم ہے ۔ اللہ نے مہربانی کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے ۔ اور ظلم اور ناانصافی اللہ کا وصف ہی نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے بندوں پر بہت شفقت کرنے والا ہے ۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے عقل دی اور اس عقل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں موجود کھلی نشانیوں کو واضح کیا ،لیکن معاملہ یہیں تک ختم نہیں کر دیا ۔ یہیں پر اس نے اپنے بندوں کو نہیں چھوڑ دیا ۔ ان نشانیوں کو یاد دلانے اور کھول کر سمجھانے کے لیے اللہ سبحان وتعالیٰ نے انبیاء اور رسول بھیجے ۔جو واضح دلائل کے ساتھ لوگوں کے پاس آئے ۔
ایک نور مسلسل:
جو کچھ انبیاء کرام اور رسول لے کر آئے وہ صرف لو گوں سے بات کرنا اور یاد دہانی کرانا نہیں تھا۔
وہ تمام وعقلی اور منطقی دلائل تھے۔
علم و حکمت سے بھر ی کتابیں تھی۔
لوگوں کے سوال پر روشن معجزات تھے
زندگی کو آسان بنانے کے لیے قانون و شریعت تھی
اور انبیا ء کرام اور رسولوں کی ہر ممکن انفرادی و اجتماعی محنت اور کوشش تھی
کہ بھٹک جانے والے لوگ اپنی غلطی مان جائیں ،اور حق کی تصدیق کر دیں ۔ بخشش کے طلب گار ہو جائیں تو ان پر رحم کر دیا جائے ۔
ظلم خود پرہی کرتے رہے مسلسل:
"پھر بھی نہ ہوئے کہ وہ اس ( ہدایت ) پر ایمان لے آتے جیسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے۔”
جب سے دنیا بنی ہے تب سے اللہ سبحان و تعالیٰ نے پہلا شخص ہی رسول بنا کر بھیجا ۔ تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو اپنے رب کی پہچان کروا سکے ۔ اس کے بعد نوح ؑسے لے کر بے شمار انبیاء اور رُسل اس دنیا میں آئے جنہوں نے اللہ کے حکم سے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ لوگ جو غلطی کر رہے ہیں اس کو درست کرلیں ۔ جو بھول گئے ہیں اُن کو یاد آجائے اور جو چاہے وہ حق پالے ۔
اس آیت میں اللہ سبحان وتعالیٰ ان کے گذشتہ رویے کے ساتھ بعد والے رویے کے بارے میں بتارہے ہیں ۔ یعنی وہ لوگ جو پہلے سچ جان جانے کے بعد اُسے دل میں چھپا کر حق سے انکار کر دیتے ہیں وہ پھر سے وہی رویہ اپناتے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے درست راستے پر آنا پسند ہی نہیں کرتے ۔
انبیاء کی تمام تر محنت اور محبت سے بیان کردہ دلائل ، کُتب ، معجزات اور ڈراوں کے باوجود وہ اپنی روش سے نہیں ہٹتے ۔ کسی بات کو خا طر میں نہیں لاتے اور پھر سے ہر بڑی نشانی ، معجزات اور دلائل کو پہچانتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں۔
محبت کو جھٹلانے والے:
"اسی طرح ہم حد سے گزرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ۔”
بلاشبہ یہ رویہ حدسے بڑھا ہوا ہے ۔ جن میں انبیاء اور رسولوں کی سچائی کو جانتے بوجتھے نہ صرف جھٹلایا جاتا ہے بلکہ ان کو تکلیف بھی پہنچائی جاتی ہے ان کا مزاق بھی اُڑایا جاتا ہے ۔وہ اپنے اس دنیا میں آنے اور واپس جانے کو جھٹلا دیتے ہیں حلانکہ دلائل ان کے رب کی تصدیق کرتے ہیں اور واپس لوٹ جانے کی بھی ۔ دل میں سچ جانتے ہوئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ خود پر اور حق لانے والوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ پھر اب مہر لگ جاتی ہے ۔ یہا ں ان لوگوں کو ان کی پسند کے ساتھ ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے جب وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔
وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو چھو ڑ کر اپنی خواہشوں کو اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔ اللہ کی رضا کے بجائے ان کی اپنی مرضی ذیادہ اہم ہوتی ہے۔ تو جو وہ چاہتے ہیں انہیں دے دیا جاتا ہے ۔ انہی اعمال کی چاہت ،توفیق اور اسباب ان کے لیے فراہم کر دیئے جاتے ہیں جن کو وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔ اپنے رب کو پہچان جانے کے بعد اسکا انکار کرتے ہیں پھر جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ حق کے علاوہ ہی ہوتا ہے اور حق کے علاوہ تو سب با طل ہے ، برُائی ہے ۔ پھر وہی ان کا نصیب ہو جاتا ہے۔
دینی اور دنیاوی علم ایک الجھن :
بہت سارے لوگوں کے لیے دینی اور دنیاوی علم کی حقیقت کو سمجھنا ایک الجھا ہوا معاملہ ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بالکل مخالف سمت کے دو علوم ہیں ۔ ایک تو ہم جان گئے ہیں کہ دینی علم قدرت کی نشانیوں سے شروع ہو کر انبیاء اور کتب تک جارہا ہے اور مکمل طور پر اللہ سبحان و تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ مگر دنیا کے علم کے بارے میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کا خالق انسان خود ہے۔
ان دونوں علوم کی حقیقت ، ا ن کے درمیان توازن اور اسکا تناسب ہمیں سمجھ میں ہی نہیں آتا ۔ اس الجھن کے ساتھ دنیاوی علم کی درجہ بندی ، شاخیں اور بے شمار استاد موجود ہیں اور اس کا فائدہ بہت قریب اور اہم معلوم ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سارا جھکاؤ ، شوق اور تربیت کا رخ اسی طرف مڑ گیا ہے ۔ جبکہ دین کےعلم کے معاملے میں یہ درجہ بندی اور واضح نتائج حاصل ہونا بہت ہی دھندلے اور دور پڑے کے معلوم ہوتے ہیں ۔
دنیاوی علم، علم الاسماء :-
دنیاوی علم اور اس کی ساری شاخیں چاہے وہ جس بھی قسم کا ہو، سائنس ، ریاضی ،آرٹس اور زبانوں کا علم بھی ، اُس علم سے نکلا ہے جو اللہ رب العالمین نے حضرت آدمؑ کو سیکھایا تھا ۔سارے دنیاوی علم کی بنیاد ناموں کا وہ علم ہے جو اللہ سبحان وتعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو سیکھادئیے تھے ۔ اور فرق کرنے کے لیے عقل اور فہم عطا کر دی تھی ۔ اس علم کی وجہ سے ہی آدم کو فرشتوں اور جنات پر فوقیت حاصل ہوئی ۔ یہ کسی سوفٹ ویئر کی طرح اس دنیا کے پہلے انسان میں انسٹال کر دیا گیا تھا اور پھر نسل درنسل ان کی آل اُو لاد میں منتقل ہوتا جارہا ہے ۔ یہ نام ہی تو ہیں جو انسان ہر چیز کے رکھ لیتا ہے ، ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کر کے درجہ بندی کر سکتا ہے اور اسی بنیاد کے ساتھ اس دنیا میں موجود سارے علوم اور زبانیں وجود میں آئی ہیں ۔ اس بات کا ذکر ہمیں قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے ۔:
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو نام سیکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے کیا پیش کیا اور فرمایا ، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاو ۔ انہوں نے کہا : تو پاک ہے ہمیں علم نہیں سوائے اُسکے جو تونے ہمیں سکھا دیا ، بیشک تو ہی خوب جاننے والا ، بڑا حکمت والا ہے ۔ اللہ نے کہا اے آدم ! تو انہیں ان چیزوں کے نام بتا دے ، چنانچہ جب اس نے انہیں ان چیزوں کے نام بتا دیئے تو اللہ نے کہا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ بیشک میں آسمانوں اور زمین کے غیب جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ سورۃ البقرہ – (31 ، 32 ، 33 )
یعنی دنیا کا سارا علم ، اللہ سبحان و تعالیٰ کے سیکھائے گئے علم الاسماء سے نکلنے والا علم ہے ۔ یہی وہ بنیادی صلاحیت ہے جو اللہ سبحان و تعالیٰ نے عقل کے ساتھ انسان کو عطا کر دی اور عمر کے ساتھ اس میں وسعت پیدا کر دی ۔
دینی علم ، علم الوحی:
دین کا علم ،وہ علم ہے جو اللہ سبحان وتعالیٰ نے بنیادی علم و عقل دینے کے بعد انسان تک پہنچایا ہے ۔ انبیاء اور اللہ کے چنے ہوئے بندوں کے ذریعے آنے والی ساری حکمت ،شریعت اور صیح راستے کا علم، علم الا وحی کا حصہ ہے ۔ جس میں الہامی کتابیں اور انبیاء کی سیرت شامل ہے ۔ علم الوحی ہی درحقیقت وہ علم ہے جس کے ساتھ دنیا کے علم کو صحیح سمت میں استعمال کرنے کا طریقہ انسان کو سیکھایا جاتا ہے ۔ ہر معاملے کی حکمت ، شریعت ، قانون اور حقیقت سے ہمیں آگاہ کیا جاتا ہے ۔
دین ہی در حقیقت وہ توازن ہے جو ہمیں دنیا کے ہر معاملے میں قائم کرنا ہے۔ دین میں شامل شریعت وہ تناسب ہے جو ہمیں دنیا کے ہر معاملے میں ماپنا ہے۔ اس علم الاوحی کے بغیر ، علم الاسماء بغیر تلوار کے ایک نیام ہے، جو اندر سے بالکل خالی او ر کھوکھلی ہے ۔ اصل چیز وہ تلوار ہی ہے جو حقیقی معنوں میں ا پنے رب کی طرف جدو جہد کرنا سیکھاتی ہے ۔ اپنے نفس کے ساتھ اور برائی کے ساتھ جہاد ۔
چنانچہ علم الاسماء اور علم الوحی ایک ہی ذات بابرکت سے نکلنے والے علم کے دو دریا ہیں جو انسان کو عطا کیے گئے ہیں ۔ جن کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی انسان کے مقام کے ساتھ اس کی حدوداس کے لیے واضح ہوتی ہیں اور وہ بندگی کے مقام پر فائز ہوتا ہے ۔ یہ علم کے ساتھ بندگی وہ پر واز ہے، جو رب العالمین نے انسان کو سیکھائی ہے اور ہر طرح سے اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔
نتیجہ:
اس سیریز کے آغاز سے اس آرٹیکل کے اختتام تک دو اہم باتیں ہمارے لیے واضح ہو گئی ہیں کہ:
ہم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے ، ہمارے دل میں خواہش ( ہدایت ) اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ انسان کے اختیار میں نہیں ۔
علم وعقل مکمل طور پر اللہ سبحان و تعالیٰ کا عطا کردہ ہیں اور اُسی کے ہاتھ میں اس کی تقسیم ہے ۔ یہاں بھی انسان کا کوئی اختیار نہیں۔
اختتام :
یہاں سوال انسان کے رویے کی طرف ا ٹھتے ہیں ۔
کون لوگ ہیں جو علم و عقل ہونے کے باوجود حق کو جھٹلا دیتے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔؟
آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
کیا یہاں وہ اپنا کوئی اختیار استعمال کر رہے ہیں؟
ان رویوں کی وجوہات کو سمجھنا ہمار ے لیے اس لیے ضروری ہے تاکہ جان سکیں کہ کیا کوئی چیز ہے جو انسان کے اختیار میں ہے؟
انہی سوالات کے ساتھ ہم اپنے اگلے آرٹیکل کا آغاز کریں گے ۔ ان شاءاللہ !
ایمان والا کون ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-9
مسلمان ہونا ،نسل اور ذات پات کے نظام کی طرح دنیا میں شناخت کی علامت تو ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے ہاں ایمان والا کون ہے؟ اس بات کا تعین […]
عدل ہی تو ایمان ہے
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-8
اپنے ارد گرد ہمیں بہت سے ذہین لوگ ملیں گے۔ جن سے دنیا کے کسی بھی موضوع پر بات کی جائے تو لگے گا جیسے وہ اس موضوع اور شعبے کو […]
حق کا انکار کرنے والے ظالم اور متکبر
سیریز : بادشاہِ حقیقی
آرٹئکل-7
انسان کا غلطی کر دینا ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، فرشتہ نہیں۔ انسان سے خطا ء ہو جانے کے بعدہی تو اصل معاملہ شروع ہوتا ہے۔ خطاء کار […]